02. مڈل انگلش یا اینگلو نارمن دور

مڈل انگلش یا اینگلو نارمن دور Middle English Or Anglo-Norman Period  1100-1500) 

 1066 میں فرانسیسی علاقہ نارمنڈی Normandy کے قبیلہ نارمن Normans کےہاتھوں ہینگز  Hastings کی جنگ میں برطانیہ کی شکست کے بعد 1500ء تک کا دور  اینگلو نارمن  دور کہلاتا ہے۔ برطانیہ پر نارمن قبضے کے بعد انگلینڈ پر فرانسیسی زبان بولنے والے حکمرانوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ یوں اشرافیہ کی زبان فرانسیسی بن گئی تاہم اعوام کی زبان Anglo-Saxon ہی رہی ۔ جو فرانسیسی اثرات کی آمیزش کے بعد Anglo-French کے بالمقابل Middle English) کہلائی ۔ رفته رفته ارتقائی عمل سے گزر کر 14 ویں صدی میں یہ زبان فرانسیسی کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ فرانسیسی زبان کے الفاظ اور انداز کلام نے اس زبان کو مزید موثر بنا دیا۔ شاعری میں قافیہ بندی فرانسیسی اثرات کا نتیجہ ہے۔ اینگلو سیکسن دور میں شاہ الفریڈ اور دوسرے لوگوں نے انگریزی نثر کو اظہار کا موثر ذریعہ تو بنا دیا تھا۔ تاہم فرانس میں چونکہ نثر بھی ارتقائی مراحل میں تھی۔ اس لیے فرانسیسی زبان میں نظم ہی موثر وسیلہ اظہار تھی ۔ فرانسیسی تسلط کے اُس دور Anglo-Norman Period میں انگریزی میں شاعری کو وسیلہ اظہار بنایا گیا۔ نثر کو نظر انداز کر دیا گیا 

رفتہ رفتہ انگلینڈ کے لوگوں نے فرانسیسی تسلط کو قبول کرلیا تو Anglo Saxon دور کی شاعری بھی قصہ ماضی بن گئی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اینگلوسیکسن شاعری عروج پر پہنچنے کے بعد صفحہ ہستی سے غائب ہو گئی اس کی جگہ Anglo-Norman شاعری رائج ہوئی، جو موضوعات اور انداز بیان میں اینگلو سیکسن شاعری سے بہت مختلف تھی ۔ فرانسیسی اثرات سے مزید انگریزی زبان مڈل انگلش کہلاتی ہے ۔

مڈل انگلش میں ادب کی مقبول ترین صنف رومانس Romances کی گئی ، ماضی کے ہیروز اور ہیروئنوں کے منظوم قصے اس وقت بھی مقبول تھے ، بعد میں بھی صدیوں تک مقبول رہے۔ ان قصوں کی مقبولیت انداز بیان کی بجائے دلچسپ واقعات کا نتیجہ تھی اکثر قصے لاطینی اوع فرانسیسی زبان سے لیے گئے ۔ مقبول ترین تھے کنگ آرتھر King Arthur ، ٹرائے کی جنگ ، The War of Troy ، ٹرائے ، شارلیمین Charlemagne اور سکندر اعظم Alexander the Great کے کارناموں کی منظوم داستانیں تھیں ۔ فرانسیسی اثرات کے باعث زبان میں شائستگی بھی ان قصوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ انگلینڈ پر نارمن قبضہ نہ بھی ہوتا تو فرانسی کلچر کے اثرات بہر حال انگلینڈ کو بھی اپنی گرفت میں کیونکہ فرانسیسی  کلچر پورے یورپ میں رواج پارہا تھا 

 ارتقا کے اس عمل میں اہم بات یہ ہے کہ اینگلو سیکسن اور اینگلو نارمن زبان کے امتزاج سے کی زمانہ وسطی کی انگریزی زبان Middle English وجود میں آئی ۔ نثر تو پس منظر میں چلی گئی نظم میں ارتقاء کا عمل جاری رہا۔ آسان اور دلکش شاعری وجود میں آگئی، جس نے نرم لہجہ اور خوشگوار ردھم Rhythm کے باعث بے پناہ مقبولیت حاصل کی ۔ اس دور کے شعراء ولیم لنگلینڈ William langland جان گوور اور جیفرے چاسر (چوسر بھی پڑھتے ہیں نے انگریزی زبان کو ادب کی زبان منوا لیا ۔  مظلوم داستانوں کے علاوہ ڈرامے کی صف نے بھی اسی دور میں جنم لیا۔ دو قسم کے ڈرامے معجزاتی اور اخلاقیاتی

 Miracle and Morality Plays

 بہت مقبول ہوئے یہ منظوم ڈرامے تھے۔

 معجزاتی ڈرامے :

 Miracle Plays

معجزاتی ڈرامے انجیل میں مذکور واقعات کی ڈرامائی شکل تھے تخلیق آدم ، آدم و حوا کی خطا باغ خلد ، ( باغ عدن ) سے اُن کی جلا وطنی سے لے کر حضرت عیسی کی آمد، اُن کی سوانح حیات اور

یوم آخرت تک کے واقعات کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ ان ڈراموں کو پر اسرار ڈرامے Mystery Plays بھی کہا جاتا تھا۔ انگلینڈ کے شاہ ہنری دوم Henry II کے دور سے لے کر ملکہ الز بتھ کے دور (1603-1115) تک یہ ڈرامے بہت مقبول ہوئے ۔ 

اصلاحی/ اخلاقیاتی ڈرامے ( Morality پلیس) 

اخلاقیاتی ڈرامے انسان کی روح پر تسلط کے لیے نیکی اور بدی کے درمیان کشمکش کی تمثیلی پیشکش ہوا کرتے تھے۔ ان ڈراموں کے کردار نیکی اور بدی کے نام سے گفتگو اور ایکٹنگ کرتے تھے۔ کہانی ان مرکزی کرداروں کے درمیان تضاد اور انسانی فطرت پر ان کے اثرات کی ڈرامائی تشکیل ہوتی تھی۔ کہانی کا مقصد نیک زندگی کی ترغیب اور مذہب کی برتری ثابت کرنا ہوتا تھا۔ ان ڈراموں میں تھا۔ مرکزی کردار انسان، انسان نسل یا تفاخر زیست Mankind, Human Race or Pride of Life 

ہوتا تھا۔ کہانی انسان کے تجربہ زیست اور گمراہ کن اثرات کا احاطہ کرتی تھی۔ شاعری میں اس دور کے اہم شعراء تین تھے۔

1۔ ویلیم لینگ لینڈ 1386/ William Langland (1332ـ

 قرون وسطی Middle Ages کے اہم ترین شعراء میں پہلا نام لینگ لینڈ تھا اس کی نظم 

A Vision Piers the Plowma

 انگریز کی ادب میں بہت بلند پایہ نظم شمار ہوتی ہے۔ انداز بیاں قدیم ہے۔ اس لیے بہت پر تکلف لگتا ہے، تاہم ی نظم انگریزی ادب کے کلاسیکس میں شمار ہوتی ہے۔ مذہبی طبقہ کی بے راہ روی پر طنز کی صورت میں یہ ظم اُس دور کے اخلاقی مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔ شاعر ایک نبی کے انداز میں معاشرے کے گناہوں کی مذمت اور نیک اعمال کی ترغیب دیتا ہے ۔ لینگ لینڈ انگریز معاشرے کے نچلے باشعور لوگوں کے عدم اطمینان کی نمائندگی کرتا ہے ہے ، جبکہ چاسر اشرافیہ اور اور خوشحال متوسط طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ بنیادی طور پر تو لینگ لینڈ ایک طنز نگار ہے۔ مگر سیاسی اور سماجی مسائل کے بارے میں واضح نظریات رکھتا ہے۔ اس کی نظر میں جاگیرداری نظام مثالی نظام ہے جس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اُس کا خیال ہے کہ اگر معاشرے کے ہر درجے کے لوگ اپنے اپنے فرائض درست طور پر انجام دیں تو معاشرہ پرامن اور خوشحال بن سکتا ہے ۔ Dante اور بینئن Bunyan کی طرح لینگ لینڈ طنز کو تمثیل کی شکل دے کر اسے باوقار بنا دیتا ہے۔ اُس کی سوچ اور تحریر حقیقت کے بہت قریب ہے۔

2۔ جان گوور (1408-1330)Jahn Gower

 انگریزی شاعری کے ارتقاء میں گوور کا نام بھی بہت اہم ہے۔ اگر چہ اہم ترین کردار چاسر کا ہے۔ مگر گوور کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گوور عہد وسطیٰ کی درباری شاعری کا نمائندہ ہے۔ جو دو تین سو سال پہلے فرانس میں رائج ہوئی تھی۔ گوور کا انداز تحریری منفرد ہے۔ اُس نے یہ ثابت کیا کہ انگریزی زبان، دوسری زبانوں سے کم نہیں۔ گوور داستان گو شاعر ہے۔ اُس کی سب سے اہم تخلیق

 Confession Amantis شاعر اور ایک روحانی ترجمان کی گفتگو کی شکل میں لکھی ہوئی ہے۔ عشق و محبت کی داستان کے طور پر یہ ایک  انسائیکلو پیڈیا کا درجہ رکھتی ہے۔


3۔ چاسر Geoffrey Chaucer

چاسر کو انگریزی شاعری کا بانی Father of English Poetry کہا جاتا ہے، وہ عہد وسطی کی انگریزی Middle English کو ایک شاندار اختتام دے گیا۔ زبان کے استعمال میں اُس نے فن شاعری کو بہت نازک، لچکدار اور شائستہ وسیلہ اظہار کا درجہ دلوایا ۔ اور انگریزی کو فرانسیسی اور لاطینی زبان کے ہم پلہ ادبی زبان بنا دیا۔ یورپی کلچر پر گہری نظر اور انگریزی کلچر کے براہ راست مشاہدے کی بنا پر اُس نے کلچر کی جو عکاسی کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ پر سکون اور متجس رویے کی بنا پر اس نے انسانی فطرت کی مختلف صورتوں کو ہمدردانہ طنز اور مزاح کے زاویے سے دیکھا اور بہت مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اُس کا طنز شدید نہیں لطیف طنز ہے۔ وہ جرم سے تو نفرت کرتا ہے نہیں ۔ اُس کا یہ انسان دوست Humanitarian رویہ ہر طرح کے تعصب سے پاک ہے۔ اس لیے، اُسے سکیولر Secular شاعر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ خوش قسمتی سے اُسے ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ مل بیٹھنے کے مواقع نصیب ہوئے۔ اس لیے اُس کی شاعری میں ہر طبقے اور ہر قبیل کے کرداروں کی عکاسی فطرت کے عین مطابق ہے۔

چاسر شاہی دربار سے وابستگی کی بنا پر سفارتی فرائض بھی سرانجام دیتا رہا۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ فرانس اور اٹلی میں بھی رہا۔ چونکہ اُس کا فطری میلان ادب کا تھا، اس لیے اُس نے فرانس اور اٹلی میں قیام کے دوران ان دونوں ممالک کے ادب کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ شاعر کی حیثیت سے چاسر کی کچھ تربیت تو فرانسیسی اور لاطینی ادب کے مطالعہ سے ہوئی اور کچھ زندگی کے تجربات و مشاہدات سے۔ وہ نہ تو محض کتابی کیڑا تھا، نہ ہی شیکسپیئر اور ملٹن کی طرح اُس کا کوئی ویژن تھا۔ وہ دنیا دار اور دوست دار آدمی تھا۔ ہر طبقے کے لوگوں میں گھل مل کر اس نے انسانی کردار اور نفسیات کے بارے میں براہ راست علم حاصل کیا۔ اس وجہ سے کردار نگاری میں اُسے ایسا کمال حاصل ہوگیا کہ اس کی نظموں اور کہانیوں کے کردار بالکل حقی نظر آتے ہیں۔

چاسر کی شاعری کے تین ادوار

چاسر کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں اُس نے فرانسیسی نمونوں (models) کی پیروی کی۔ اس دور میں اُس کا خاص کارنامہ مشہور طویل فرانسیسی نظم 

Le Roman de la Rose کے عنوان سے انگلش میں ترجمہ ہے۔ یہ نظم عہد وسطیٰ کی فرانسیسی رومانوی اور درباری داستانوں پر مبنی ہے۔ اس ترجمے کو چاسر کی شاعری کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اس دور میں چاسر نے The Book of Duchess کے عنوان سے ایک منظوم مرثیہ بھی لکھا۔ یہ مرثیہ Romount of the Rose کے انداز کا ہے۔ اس دور میں ABC کے عنوان سے مذہبی شاعری کے انداز میں لکھی گئی نظم بھی چاسر کی ابتدائی شاعری میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم کا ہر بند (Stanza) حروف ابجد (Alphabet) کے ایک الگ حرف سے شروع ہوتا ہے۔

دوسرا دور: اطالوی اثرات

چاسر کے دوسرے دور (1373-1384) کی شاعری اطالوی اثرات کے تحت لکھی گئی نظموں بالخصوص دانتے کی Divine Comedy اور بوکشییو کی نظموں سے متاثر شاعری ہے۔ اس دور میں The Parliament of Birds کے عنوان سے پرندوں کی ڈرامائی اور طنزیہ گفتگو کو بہت دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ اس دور کی دوسری نظم ٹرائے کے شہزادے Troilus کی Criseyde نامی دوشیزہ سے عشق کی داستان ہے۔ عورت کی مظلومیت کی عکاسی The Story of Griselde میں بہت خوب کی گئی ہے۔ مزاحیہ فینٹسی Comic Fantasy کے روپ میں The House of Fame انسانی حقوق کا بہت دلچسپ اظہار ہے۔ اس میں سنجیدہ غور و فکر کے بھی کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔

تیسرا دور: خالص انگریزی دور

چاسر کا تیسرا دور (1384-1390) اس کا انگلش دور کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں چاسر نے فرانس اور اٹلی کے اثرات سے منہ پھیر کر اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال خالص انگریزی زبان میں کیا۔ Legend of Good Woman کے عنوان سے نظم میں اس نے پہلی دفعہ ہم قافیہ مصرعوں (Heroic Couplet) کا استعمال کیا۔ چاسر نے اپنی شاہکار نظم بھی اس دور میں لکھی۔ اس نظم میں دوستانہ مزاح اس کی بے پناہ مقبولیت اور بقائے دوام کا سبب بنا۔ یہی لطیف مزاح چاسر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ جو اس نظم میں عروج پر نظر آتی ہے۔ اس نظم میں چاسر نے اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں اور انداز بیاں کی خوبیوں کو یکجا کر کے ایک شاہکار تخلیق کا ادب کی تاریخ میں اضافہ کیا۔ اس نے مقامی زبان میں مقامی کلچر کے بارے میں لکھنے کی راہ ہموار کی اور اس احساس کمتری کا خاتمہ کر دیا کہ ادب تو بس فرانسیسی، اطالوی زبان ہی میں تخلیق ہو سکتا ہے۔

Canterbury Tales

اس نظم میں اُس دور کے انگریز معاشرے کی عکاسی زائرین کے روپ میں کی گئی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مختلف طبقوں اور پیشوں سے وابستہ زائرین ایک سرائے Tabbard Inn میں اتفاق سے یکجا ہوتے ہیں۔ ان کی حرکات اور انداز گفتگو ان کے پیشے اور طبقے کی نمائندگی بھی کرتے ہیں اور ملکی ثقافت کی بھی۔

کینٹربری زیارت کے لیے جانے والوں میں سرائے کا مالک بھی شامل ہو گیا۔ اُس نے یہ تجویز پیش کی کہ وقت گزاری کے لیے ہر آدمی دو کہانیاں جاتے ہوئے سنائے، دو آتے ہوئے، سب نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا۔ یوں 120 کہانیوں پر مشتمل داستان بننے جارہی تھی۔ داستان کے آغاز میں چاسر نے ان 30 زائرین کی آپس میں ملاقات کی صورت واضح کرنے کے علاوہ ان تمام افراد کا فرداً فرداً تعارف بھی کروایا۔ یہ تعارف The Prologue to Canterbury Tales کے عنوان سے اپنی جگہ شاہکار ادب بن گیا۔ افراد کے تعارف میں ہر فرد کی شکل وصورت، لباس، حرکات اور انداز گفتگو کا بیان انگریزی ادب میں تخلیقی کردار نگاری کا پہلا قدم ثابت ہوا۔

چاسر چونکہ مجلس باز (Social) آدمی تھا۔ اس لیے اُس نے ہر طبقے کے افراد کا بہت قریبی مشاہدہ کر رکھا تھا۔ اس مشاہدے کی بنا پر اس نے Prologue میں شامل ہر فرد کی جیتی جاگتی تصویر بہت موثر انداز میں پیش کر دی۔ کرداروں کی ورائٹی کو دیکھ کر معروف نقاد اور شاعر ڈرائیڈن (Dryden) نے کہا:
“Here’s God’s Plenty”

چاسر کی کردار نگاری نے ڈرامے اور ناول کی راہ بھی ہموار کر دی۔ ہر کردار کی گفتگو اسی کے طبقے اور استعداد کی آئینہ دار ہے۔ چاسر نے اُن کی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی ہمدردانہ مزاح کا رنگ دے کر اس طرح پیش کیا ہے کہ اُن کی ان خامیوں اور کمزوریوں پر بھی پیار آتا ہے۔ کرداروں سے ہمدردی کا یہ رویہ شیکسپیئر اور چارلس ڈکنز کے ہاں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ تاہم کرداروں کو اس انسان دوست (Humanitarian) انداز میں پیش کرنے کا آغاز چاسر ہی نے کیا۔

چاسر نے Canterbury Tales میں ڈرامائی انداز اختیار کر کے ایک طرف تو ڈراما نگاری کی راہ ہموار کی، دوسری طرف کردار نگاری سے اُس نے ناول نگاری کے امکانات کی راہ دکھا دی۔ ایسے ہی کچھ اشارات اس کی ابتدائی شاعری میں بھی موجود ہیں۔ اور جیتے جاگتے کرداروں کی ورائٹی Canvas کا درسی کینوس Canterbury Tales بلاشبہ ڈراما نگاری اور ناول نگاری کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ آگے چل کر کینوس کی وسعت اور کرداروں کی ورائٹی انگریزی ادب کا طرہ امتیاز بن گئی۔

چاسر کا ادبی مقام

چاسر کا کمال یہ تھا کہ اُس نے انگریزی زبان اور ادب کو بلوغت کی منزل پر پہنچا دیا۔ عہد وسطی کی انگریزی زبان و ادب Middle English کے کسی اور شاعر یا ادیب میں چاسر جیسی فنی مہارت، نظر کی وسعت اور انسان دوستی دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ خوبیاں چاسر کے بعد شیکسپئر سے پہلے کسی اور شاعر یا ادیب کی تحریروں میں نظر نہیں آتیں۔ تکنیک اور بصیرت کا ایسا امتزاج صرف شیکسپیئر کے ہاں ہی نظر آتا ہے۔ داستان گوئی کے فن میں شیکسپیئر سے پہلے چاسر کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔

چاسر کے بعد کا دور

علامہ اقبال نے داغ کی وفات پر کہا تھا:
“آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے”

چاسر کو بھی اپنے دور کا آخری شاعر کہنا غلط نہ ہوگا۔ 1400ء میں اُس کی موت کے بعد انگریزی ادب پوری ایک صدی تک ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا۔ یہ نہیں کہ چاسر کے بعد کوئی شاعر پیدا نہ ہوا۔ بہت سے لوگ تھے، مگر وہ سب چاسر کی نقل کرتے رہے۔ چاسر جیسی وسعت نظر، مشاہدہ کی وسعت اور فن پر گرفت کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ یوں کہیے کہ چاسر کے بعد کوئی Genius اُس دور میں پیدا نہ ہوا۔ متوسط درجے کی صلاحیتوں والے لوگ Mediocres ہی قلم گھساتے رہے۔ کوئی معیاری تخلیق منظر عام پر نہ آئی۔

تاہم چاسر ادب پر اتنے گہرے نقوش ثبت کر گیا کہ Spenser, Milton اور William Morris جیسے بلند پایہ اہل قلم نے بھی اُس کی شاعری سے استفادہ بھی کیا اور اُسے زبردست خراج تحسین بھی پیش کیا۔

About admin

Check Also

10. جانسن کا دور